عباس پور Abbaspur | Disable Right Click using jQuery

قدیم تاریخ

شہر عباس پور ۱۹۴۷ء کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔عباس پور کا قدیم نام ٹاٹ اور گوپال پور ہے۔ اس خطہ کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں ہے۔ اگر اس کے ماضی کی جانب نظر دوڑائی جائے تو ہماری حد نگاہ ڈیڑھ دو سو سال تک محدود ہے۔پونچھ ایک پہاڈی علاقہ ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے نہ تو سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اورنہ ہی مؤرخین نے اس پر زیادہ توجہ دی۔علاقہ ٹاٹ اگرچہ شہر پونچھ کے بالکل قریب واقع ہے، مگر کسی اہم گزرگاہ پر واقع نہ ہونے کے باعث یہ نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ پونچھ سے سری نگر کا راستہ یعنی درہ حاجی پیر اور پنجاب اور جموں کے رستوں میں سے بھی کوئی یہاں سے نہیں گزرتا تھا۔ شہر پونچھ سے باہر ٹاٹ سے ہو کر جانے والا راستہ پونچھ تا باغ تھا؛ جو پولس، پوٹھہ، دھڑیاں، گوپال پور، نمجر اور کھلی درمن سے گزرتاہوا درّہ تولی پیر کے رستے باغ کو جاتا تھا۔ ۱۸۸۵ء میں شائع ہونے والے سرکاری گزیٹیئر میں علاقہ ٹاٹ کے بارے میں صرف اس قدر درج ہے کہ یہ پونچھ کا ایک پرگنہ(دیہات) ہے۔ تاریخی کتب میں اگر اس خطہ کا کہیں ذکر ملتا ہے تو وہ سردار شمس خان ملدیال کے نام کے ساتھ ملتا ہے۔ سردار شمس خان کا دور ۱۸۳۲ء سے قبل کا ہے جب پونچھ میں’’آپ راجی‘‘ (طوائف الملوکی) کا دور تھا۔
تاریخی اعتبار سے اس خطہ کے بارے میں جو شہادتیں مل سکتی ہیں ان کی ابتدا قبل از مسیح سے ہوتی ہے، جب پونچھ کا نام لوہر کوٹ تھا۔ تاریخ دانوں نے تین ہزار قبل مسیح کے ایک بادشاہ مہر گل کے پونچھ کی فتح اور قیام کی شہادت دی ہے۔ ۶۳۱ء میں چینی سیاح ہیون تسانگ نے پونچھ کا نام پرونس لکھا ہے۔ پونچھ کے پرانے نام لوہر کوٹ اور لوہارا بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔پونچھ اگرچہ ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے قائم رہی مگر مختلف اوقات میں یہ کشمیر ، پنجاب یا دہلی تک کی حکومتوں کی زیر نگیں رہی۔ مگر گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے جب کشمیر پر حملہ کیا تو وہ پونچھ کو تسخیر نہ کر سکا۔
tab1 ۱۵۹۴ء میں شہزادہ سلیم نے راجہ سراج الدین کو پونچھ کی حکمرانی عطا کی ۔ ۱۶۴۵ء میں راجہ سراج الدین کے انتقال کے بعد اس کے فرزند راجہ فتح محمد خان نے پونچھ کا اقتدار سنبھالا۔ اسی راجہ کے دور میں دیگوار کے سردار جان محمد خان (جانو ملدیال) نے ۱۷۰۰ء میں عوامی حقوق کی خاطر تحریک شروع کی جو نہ صرف راجہ فتح محمد خان کے اقتداربلکہ اُس کی زندگی کے خاتمے کا سبب بنی۔ ۱۶۷۷ء میں جب راجہ فتح محمد خان نے اپنے فرزند راجہ عبدالرزاق خان کو اقتدار سونپ دیا اور دوسرے فرزند معظم خان کو کچھ علاقے دیئے تو علاقہ ٹاٹ راجہ معظم خان کے حصے میں آیا۔(دراصل راجہ فتح محمد خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے فرزند راجہ فتح محمد خان کو اپنا ولی عہد نامزد کر کے اختیارات دے دیئے تھے اور خود گوشہ نشین ہو گیا تھا)چنانچہ ۱۶۷۷ء سے ۱۷۹۸ء تک علاقہ ٹاٹ سدھرون جاگیر میں شامل رہا۔ بلکہ معروف مؤرخ منشی محمد الدین فوق کے مطابق ۱۸۴۰ء تک سدھرون جاگیر کا حصہ رہا۔ منشی محمد الدین فوق لکھتے ہیں: ’’راجہ عظمت اللہ خان والئی سدھرون کے آخری زمانہ تک یہ علاقہ ایک ریاست کی صورت حکومت پونچھ کے زیرِ اثر رہا۔ راجہ شیر باز خان کے زمانہ میں یہ علاقہ حکومت پونچھ سے بالکل آزاد ہو کر پہلے کشمیر اور بعد ازاں خالصہ حکومت پنجاب کے ماتحت آ گیا۔ ۱۸۴۰ء میں ٹاٹ اور باغ وغیرہ اس علاقہ سے نکل گئے۔‘‘ ایک سال کے تعطل کے بعد ۱۷۰۱ء میں راجگان سدھرون کی راجگی دوبارہ قائم ہو گئی اور راجہ فتح محمدکا فرزند راجہ عبدالرزاق پونچھ کے اقتدار پر براجمان ہوا۔ ۱۷۴۷ء میں جب راجہ عبدالرزاق خان کا انتقال ہوا تواس کا فرزند راجہ گوہر علی (المعروف راجہ رستم خان) ابھی بچہ تھا۔ چنانچہ راجہ کے وزیر لطف اللہ خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور تین سال تک پونچھ کا برائے نام حکمران رہا ۔
لطف اللہ خان کے اقتدار کو راجہ اسلام یار خان نے سدھرون کے جاگیردار راجہ بقا محمد خان کی مدد سے ختم کیا اور ۱۱؍ سال تک پونچھ پر حکومت کی۔ اور اس کے بعد اقتدار راجہ گوہر علی کے سپرد کر کے کشمیر چلا گیا۔ راجہ گوہر علی المعروف راجہ رستم خان کا دور پونچھ میں راجگان سدھرون کا زریں دور کہلاتا ہے۔ اسی راجہ کے نام پر پونچھ کا نام رستم نگر پڑا۔ راجہ رستم خان کی وفات کے بعد پونچھ کی حکومت انحطاط و تنزل کا شکار ہو کر بالآخر انجام کو پہنچی۔ راجہ رستم خان کے بعد اس خاندان کے راجہ محمد شہباز خان نے ۱۷۸۷ء تا ۱۷۹۲ء ، راجہ خان بہادر خاں نے ۱۷۹۲ء تا ۱۷۹۸ء اور راجہ شیر باز خان نے ۱۸۰۴ء تا ۱۸۰۸ء تک حکومت کی۔ اور پھر راجہ رستم خان کے وزیر روح اللہ نے حملہ کر کے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا اور خود پونچھ کا حکمران بن بیٹھا۔ ۱۸۱۹ء میں روح اللہ کی وفات کے بعد اس کا پوتہ میر باز یہاں کا حکمران بنا جسے ۱۸۲۳ء میں سکھوں نے معزول کر دیا۔راٹھور راجگان کو پونچھ میں آخری مسلمان حکمران کے طور جانا جاتا ہے۔
راٹھور راجگان کے آخری دور میں حکومت کمزور اور ملک میں بد نظمی اور افراتفری کا دور دورہ رہا، جس کے باعث ریاست میں طوائف الملوکی کی فضا پیدا ہوئی۔ اس دور کو پونچھ میں ’’آپ راجی‘‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ ۱۸۱۹ء میں پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیاتو پونچھ کو ڈوگروں کے حوالے کر دیا۔ سکھوں نے علاقے کا نظم و نسق چلانے کے لئے دھنپت رائے اور حکمان سنگھ چمنی کا تقرر کیا مگر علاقے میں آپ راجی کا دور دورہ تھا، لہٰذا سکھ حکومت کی رِٹ یہاں قائم نہ ہو سکی۔

نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ




آپ راجی دور


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ

جنگ آزادی ۱۸۳۲ء


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ

گوپال پور ۴۷ء سے قبل


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ

جنگ آزادی ۱۹۴۷ء


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ

شہرِ عباس پور کی بنیاد


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ

ارتقاء


نوٹ: اس بارے میں آپ کی جانب سے مزید معلومات اور رہنمائی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔اگر اس موضوع کے حوالے سے آپ کے پاس کوئی مواد موجود ہے تو بمہربانی ہمیں فراہم کریں۔ شکریہ